کبھی گیسوؤں پہ غزل لکھی، کبھی چشمِ مے کو سجا دیا
میری پہ تُو ناز کر،۔ تجھے شہریار بنا دیا
تھا گلی میں بیٹھا سِسک رہا، غمِ یک نفس سے تڑپ رہا
میں نے دُکھ کے بال سنوار کے، اُسے اپنے گھر کا پتہ دیا
سرِ شام ایسی ہوا چلی،۔ کہ چراغِ آرزو بُجھ گئے
فقط اک شرارۂ دل بچا، اُسے میں نے خود ہی بُجھا دیا
میرے دُکھ بنے ہیں مِری زباں، میرے زخم ہی میرے لفظ ہیں
میرے غم کے عُمر دراز ہو، مجھے بات کرنا سِکھا دیا
ذیشان نشتر
No comments:
Post a Comment