تم ہو، انجم ہے کہ اک انجمن آرائی ہے
ہم ہیں، اک دشت ہے اور گوشۂ تنہائی ہے
تم خفا، گُل بھی خفا، اہلِ گُلستاں بھی خفا
ہم نے پُھولوں سے محبت کی سزا پائی ہے
اب تجھے میری جفاؤں پہ ہے شکوہ کیوں کر
میں نہیں اہلِ وفا، تُو بھی تو ہرجائی ہے
ہم سے ملتے بھی ہو غیروں سے مراسم تیرے
کیا محبت ہے کہ ہر در پہ جبیں سائی ہے
میرا ہر نغمہ ہے خاموش سمندر جیسا
میرے ہر شعر میں اک دشت کی پہنائی ہے
ان سے بچھڑے ہوئے قیصر تو زمانے بیتے
میں ہوں، صحرا ہے کہ اک گردشِ صحرائی ہے
قیصر جمیل ندوی
No comments:
Post a Comment