عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
چھائی ہوئی کچھ ایسے بہارانِ نعت ہے
لب پر درودﷺ دل میں گلستانِ نعت ہے
قرآن جس کی شان میں دیوانِ نعت ہے
اس دلربا کی دُھن مِرا سامانِ نعت ہے
ساون کچھ ایسے حُسن سے آیا ہے اب کی بار
اشکوں کے جلترنگ میں بارانِ نعت ہے
فصلِ ربیع واہ تِری دل ربائیاں
گھر گھر میں ذکرِ الفتِ جانانِ نعت ہے
کون و مکان ان کی تمنّا میں ہیں مگن
اور ان کے دھیان میں، جو ثنا خوانِ نعت ہے
اعزاز میں جو ان کے سجی ہے یہ کائنات
پیرایۂ لطیف میں اعلانِ نعت ہے
صد مرحبا جو اشک بہے ان کے عشق میں
گریہ اس عقل پر جو گریزانِ نعت ہے
فیضِ نگاہِ شوق سے منطق پکار اٹھی
"ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے"
وجدان و قول و فعل پہ ہی منطبق نہیں
"ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے"
ذوقِ سخن عطائے خداوند ہے مگر
کیا بات اس عطا کی جو وجدانِ نعت ہے
ہو آیا دل مدینہ سے جب رہ گئے قدم
کیا کم یہ کم نصیبوں پہ احسانِ نعت ہے؟
آفاق دیکھ، نفس کو دیکھ، ارتقاء کو دیکھ
ہر متنِ کائنات پہ عنوانِ نعت ہے
دنیا کے بادشاہوں کا ہو کیوں نیاز مند
شہ زاد خاکِ پائے ثنا خوانِ نعت ہے
پروانہ وار جلنے کو آیا ہے شاہ زاد
وہ بُوالحسنؑ کی شمعِ شبستانِ نعت ہے
حسین شاہ زاد
No comments:
Post a Comment