عشق میں اور اذیت اے جگر چاہیے ہے
مجھ کو اس آگ کے دریا میں بھنور چاہیے ہے
آنکھیں مانوسِ شبِ تارِ الم ہو بھی گئیں
اور یہ دل ہے اسے اب بھی سحر چاہیے ہے
جذبۂ عشق مِرے رُخ سے تو وحشت نہ ہٹا
مجھ کو اس شوخ کی آنکھوں میں یہ ڈر چاہیے ہے
دُھوپ ہی بیچنے والے یہ بتا سکتے ہیں
کون وہ لوگ ہیں جن جن کو شجر چاہیے ہے
خاک جھڑتی ہے بدن سے وہ تھکن ہے یاروں
رُوح بھی چیخ رہی ہے؛ مجھے گھر چاہیے ہے
تیرگی کون سے کونے میں نہیں پہنچی ہے
روشنی! تجھ سے فقط اتنی خبر چاہیے ہے
ان کو سجدے میں تو ان کو سرِ نوکِ نیزہ
سب کو بس ایک ہی دُھن ہے؛ مِرا سر چاہیے ہے
کون جانے کہ سفر کی بھی کوئی منزل ہے
کون جانے کہ سفرؔ کو بھی سفر چاہیے ہے
سفر نقوی
No comments:
Post a Comment