ترکِ اُلفت تو اک بہانہ تھا
وہ گیا، خیر اس کو جانا تھا
ہم بھی رستے میں تھک گئے تھے بہت
اُس کو بھی ساتھ کب نبھانا تھا
رُخ پہ تازہ گُلاب کیا کِھلتے
زرد پتوں کا وہ زمانہ تھا
نام لِکھا تھا جو ہتھیلی پر
کتنا مُشکل اسے مِٹانا تھا
تم نے شعلہ بنا دیا مجھ کو
کیا مِرا ظرف آزمانا تھا؟
دل کے لُٹنے پہ شور کیا کرنا
کون سا قیمتی خزانہ تھا
مونا شہاب
No comments:
Post a Comment