خاک صحرا میں اُڑاتی ہے یہ دیوانی ہوا
اور بہاروں میں کرے گی چاک دامانی ہوا
پیڑ اُکھڑے، گھر گِرے، آندھی چلی، چھپّر اُڑے
چل پڑی جس وقت آبادی میں دیوانی ہوا
گرمیوں میں مُضطرب تھے لوگ پانی کے لیے
بادلوں کو کر گئی برسات میں پانی ہوا
یوں ہُوا محسوس پتوں کے کھڑکنے سے مجھے
چُپکے چُپکے کرتی ہے اوراق گردانی ہوا
روشنی ہی روشنی ہوتی جہاں میں ہر طرف
گر چراغوں کی کیا کرتی نگہبانی ہوا
ہائے پھر جذبات آسی کو ہوا دینے لگے
دل کے دریا میں کہیں لائے نہ طغیانی ہوا
آسی فائقی
عاصی فائقی
No comments:
Post a Comment