Tuesday, 28 November 2023

نوائے دل نے کرشمے دکھائے ہیں کیا کیا

 نوائے دل نے کرشمے دِکھائے ہیں کیا کیا

مِری اذاں نے نمازی جگائے ہیں کیا کیا

جمالِ یار! تِری آب و تاب کیا کہیۓ

نظر نظر کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا

ادائے ناز کو اندازِ دلبری سمجھے

فریب اہل محبت نے کھائے ہیں کیا کیا

زمیں زمیں نہ رہی اور فلک فلک نہ رہا

مقام و وقت بھی گردش میں آئے ہیں کیا کیا

خزاں کے جور و ستم کی تو کوئی بات نہیں

مگر بہار نے بھی گُل کِھلائے ہیں کیا کیا

کسے بتاؤں کہ تیرا خیال آتے ہی

حجاب میرے تصور کو آئے ہیں کیا کیا

وہ تیری شوخ نگاہی، وہ تیری خندہ لبی

دل غریب پہ چرکے لگائے ہیں کیا کیا

کبھی خلوص محبت، کبھی گریز و فرار

بنا بنا کے مقدر مٹائے ہیں کیا کیا

کبھی تو دیکھ کہ میری تباہ حالی پر

حیات و موت نے آنسو بہائے ہیں کیا کیا

ہے آج خونِ تمنا، تو کل اُمید کی موت

دلِ حزیں نے جنازے اُٹھائے ہیں کیا کیا

نگاہِ قیس! تِری دسترس کو مان گئے

کہاں کہاں سے مضامیں چُرائے ہیں کیا کیا


راج کمار قیس

No comments:

Post a Comment