دُکھ کے عالم میں بھی بس ایک سہارا دُکھ ہے
خُوش تو بس یوں ہیں کے اس بار تمہارا دکھ ہے
جیت کر لاؤ تو خُوشیوں کا سبب بنتا ہے
ہار جاؤ تو مِرے یار! ستارہ دکھ ہے
آسماں والوں نے اس بار بھی دُکھ بھیجا تھا
آسماں والوں نے اب کے بھی اُتارا دکھ ہے
تیرے ہاتھوں نے جو تھاما ہے کسی اور کا ہاتھ
میری آنکھوں کو یہی ایک نظارہ دکھ ہے
گھر کی تعمیر کو بس ریت میسّر ہو جنہیں
ایسے لوگوں کو یہ دریا کا کنارہ دکھ ہے
ہم سے انکار محبت کا بھلا کب تک ہو
اس کے چہرے پہ عیاں صاف ہمارا دکھ ہے
ایسی حالت میں تو مر جاتے ہیں اچھے اچھے
ہم نے جس حال میں اس بار گُزارا دکھ ہے
ہم نے اس بار پلٹ کر نہیں دیکھا اس کو
اس نے اس بار مِرا نام پکارا، دکھ ہے
دونوں کو ایک ہی زمرے میں رکھا ہے عرفان
ہم نے خُوشیاں نہ سنواری نہ سنوارا دکھ ہے
سیف عرفان
No comments:
Post a Comment