Tuesday, 28 November 2023

وفا کا ذکر بھی محفل میں چیدہ چیدہ ہوا

 وفا کا ذکر بھی محفل میں چِیدہ چِیدہ ہوا

تھا ایک دل وہ بھی خستہ ستم رسِیدہ ہوا

جو ذکرِ یار ہُوا، لفظ یوں اُترنے لگے

تھی ابتداء میں غزل، انتہا قصیدہ ہوا

ہم انفعال و ندامت میں منہ چُھپائے رہے

وہ سینہ تان کے دُنیا میں برگزیدہ ہوا 

خود اپنے ہاتھوں ہی انجام سوزِ عشق کِیا

کُریدنے کے سبب زخم خُوں چکیدہ ہوا

تھی آبیاری ہی اتنی،۔ ہرا بھرا ہی رہا

شجر یہ عشق کا اشکوں سے نَو دمیدہ ہوا

وہ مُبتلائے سحر تیرہ بخت ہی ٹھہرا

سحر ہوئی بھی مگر پھر بھی شب گزیدہ ہوا


حنا بلوچ

No comments:

Post a Comment