نہ کوئی عشق رہا، اور نہ محبت ہے تمہیں
صاف ظاہر ہے کہ اب مجھ سے عداوت ہے تمہیں
مسئلہ حل نہیں ہو گا کبھی خاموشی سے
لب کو جُنبش دو اگر کوئی شکایت ہے تمہیں
میں تمہیں چھوڑ کے جاؤں یہ نہیں ہو سکتا
تم مجھے چھوڑنا چاہو تو اجازت ہے تمہیں
مُسکراتے ہوئے چہرے پہ اُداسی کیسی
کیا مِری جان مِرے ساتھ اذیت ہے تمہیں
تم کسی ایک کے رہتے نہیں سِکے کی طرح
وقت کے ساتھ بدل جانے کی عادت ہے تمہیں
یوں تماشا نہ کرو،۔ ترک تعلق کر لو
اتنی پیاری اگر اجداد کی عزت ہے تمہیں
کھیلتے رہتے ہو معصوم دلوں سے اکثر
کھیلنا دل سے کوئی شوق نہیں، لت ہے تمہیں
زندگی رنگ سے بے رنگ نظر آئے گی
تتلیاں قید نہ کرنا یہ نصیحت ہے تمہیں
مے ہوئی ختم تو ساقی نے کہا؛ حضرتِ قیس
اشک پی لیجیۓ گر پیاس کی شِدت ہے تمہیں
میری تنہائی مجھے دیکھ کے فرماتی ہے
میرے ہوتے ہوئے اور کس کی ضرورت ہے تمہیں
محور سرسوی
No comments:
Post a Comment