کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
یادوں کے گمنام جزیروں پر
جب بیٹھوں میں تنہا
کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
سوچوں کے ٹھنڈے ساحل پہ
چلوں جو برہنہ پا
کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
ماضی کی بند کتابوں کو
گر چھوڑ دوں کُھلا
کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
خواہشوں کی الجھی ڈور
جب نہ پاؤں سُلجھا
کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
دل کے بند دروازے پر
دھڑکن کی دستک بڑھتی ہے
ساون کے بادل کی مانند پھر
چھم چھم آنکھ برستی ہے
تنہائیوں گُھپ اندھیروں میں حنا
کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
حنا بلوچ
No comments:
Post a Comment