خود سے پوچھے بِنا محبت کی
اور بُھگتی سزا محبت کی
اُس نے تو سرسری سا پوچھا تھا
میں نے دل سے کہا؛ محبت کی
پُوچھتا تھا کہ انتہا کیا ہے؟
مجھ سے بے انتہا محبت کی
جانتا تھا مِرے مسائل کو
مجھ سے کیوں دوستا محبت کی
یاد رکھے حویلی دل کی تجھے
اینٹ ایسی لگا محبت کی
میں دِیوں کو جلا جلا کے رکھوں
چل رہی ہے ہوا محبت کی
لوگ پتھر دکھائیں گے تجھ کو
بات کر تو ذرا محبت کی
عندلیب راٹھور
No comments:
Post a Comment