جُھکاتے ہیں نظر ہم، وہ ملائے جاتے ہیں
بات بے بات، وہ بات بڑھائے جاتے ہیں
تھامتے ہیں گِرنے سے کبھی رومال تھمائے جاتے ہیں
احساس کے پردے میں خوب دل لگائے جاتے ہیں
تنہائی میں تنہا ہونے نہیں دیتے
خیال ان کے محفلیں سجائے جاتے ہیں
والہانہ ڈالی جب بھی ڈالی نگاہِ شوق
ہم ہیں کہ آگہی سے کترائے جاتے ہیں
ہم آہنگئ جذبات کا کیا کہیۓ زہرہ
حالِ دل وہ مِرا آپ سُنائے جاتے ہیں
زہرہ مغل
No comments:
Post a Comment