شبِ فُرقت مصیبت ہے، نہیں تو
یہ آہیں کیا شکایت ہے، نہیں تو
نظر پھر کیوں نہیں ہٹتی ہے اُن سے
اُنہیں پانے کی حسرت ہے، نہیں تو
اُتاروں عشق کے دریا میں کشتی
تو کیا خود سے عداوت ہے، نہیں تو
شبِ فُرقت کا آخر کیوں ہو رونا
مجھے اُن کی ضرورت ہے، نہیں تو
زمیں کیا، لے گیا وہ آسماں بھی
وقار اُس سے شکایت ہے، نہیں تو
وقار احمد
Thursday, 23 November 2023
شب فرقت مصیبت ہے نہیں تو
Labels:
وقار احمد
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment