عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل کے صدف میں قطرۂ نیسانِ نعت ہے
آسودہ حالِ شہر ہوں، احسانِ نعت ہے
اقلیمِ ہفت میری قلمرو شمار کر
وہ یوں کہ میرے ہاتھ قلمدانِ نعت ہے
یہ بھید مجھ پہ کلمۂ لولاک سے کُھلا
"ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے"
رنج و الم کی نذر ہوئے جا رہے ہیں لوگ
مُنعم ہے وہ جو سر بگریبانِ نعت ہے
اے تختِ مصر! یوسفِ دیگر تلاش کر
میری تڑپ تو جادۂ کنعانِ نعت ہے
پی پی کے زندگی کی طرف لوٹتے چلو
اے مُردگاں! یہ چشمۂ حیوانِ نعت ہے
کاغذ، قلم، دوات، شکستہ سا اک چراغ
زادِ سفر مِرا، یہی سامانِ نعت ہے
کچھ اور جذب و فکر کی لَو کو اُبھار دے
بسمل ابھی تُو دُودِ چراغانِ نعت ہے
بشریٰ فرخ
No comments:
Post a Comment