کہاں احسان میری ذات پر تقدیر کا ہو گا
ہُوا گر کچھ مِرے حق میں صِلہ تدبیر کا ہو گا
مِری ہر شب گُزر جاتی ہے اکثر اس تمنّا میں
کوئی تو خواب میری اس نئی تعبیر کا ہو گا
بزرگوں کا بھی سایہ اب تو سر سے چِھن گیا اپنے
کہ یہ بھی حادثہ لکھا مِری تقدیر کا ہو گا
سبھی اوراق کہنے کو تو ہم نے کر لیے ہیں پر
تم آؤ تو اضافہ اک نئی تحریر کا ہو گا
دِلاسہ دونوں جانب سے نئی نسلوں کو مِلتا ہے
نہ جانے مسئلہ کب حل مگر "کشمیر" کا ہو گا
وہ جن باتوں سے اب تک منحرف ہوتے رہے سیفی
وہی عنواں ہماری آج پھر تقریر کا ہو گا
حبیب سیفی
No comments:
Post a Comment