Wednesday, 29 November 2023

گھنی راتوں پہ کھلتا ہے وہ در آہستہ آہستہ

 گھنی راتوں پہ کُھلتا ہے وہ در، آہستہ آہستہ

تو ہونے لگتی ہے ہر جا سحر، آہستہ آہستہ

میں دیتا ہوں سبھی کو پورا موقع شرمساری کا

میں کرتا ہوں سبھی کو درگزر، آہستہ آہستہ

کسے دیکھوں، کسے سوچوں، کسے اپنا بنا ڈالوں

یہ سب باتیں میں سوچوں گا، مگر آہستہ آہستہ

کسی دن دُور سے ایسا سحابِ عشق آئے گا

جو اپنی زد میں لے لے گا نگر، آہستہ آہستہ

فقط اک شخص کے جانے پہ سینے کا بھرم مت توڑ

اے میرے دل! اے میرے نوحہ گر، آہستہ آہستہ


مقیل بخاری

No comments:

Post a Comment