Friday, 24 November 2023

تمہارے شہر میں تھا بھی تو اک مسافر میں

 تمہارے شہر میں تھا بھی تو اک مسافر میں

سو تھک کے بیٹھ گیا راستے میں آخر میں

میں ہر لحاظ سے سیراب تھا خدا کی قسم

یہ اور بات کہ پیاسا رہا بظاہر میں

حروف ملتے ہی آواز ڈُوب جاتی ہے

جو چُپ رہوں نہ بتاؤ تو کیا کروں پھر میں

کسی بھی سمت بھٹکتا پھروں یمین و یسار

تلاش راہ کروں بھی تو کس کی خاطر میں

مِری خوشی کو یہی ربط باہمی ہے بہت

مِرا مغنی ہے وہ اور اس کا شاعر میں

یہ کھیل ختم بِنا ہار جیت کے ہو گا

کہ جس ہُنر میں وہ یکتا اسی میں ماہر میں

ہزار باندھا گیا مجھ پہ آئینوں کا حِصار

کسی پہ اپنے علاوہ ہُوا نہ ظاہر میں


ظفر زیدی

No comments:

Post a Comment