لبوں پر اب غمِ دل کو کبھی سجتا نہیں دیکھا
رہا یہ درد میرا ہی کہیں بٹتا نہیں دیکھا
مِری پلکوں نے پایا ہے ہنر گوہر چھپانے کا
کسی نے آنکھ سے موتی مِری گِرتا نہیں دیکھا
سبب اپنی انا کے کچھ کہے بِن مر ہی جاتے ہیں
کوئی اب ضبطِ اُلفت میں مگر مرتا نہی دیکھا
بڑے اسرار ہیں انسان میں گر کھوج کر دیکھیں
ادھر اس دورِ حاضر میں کوئی سادا نہیں دیکھا
نہیں ہے تاب سننے کی جو سُنتے ہیں وہ جلتے ہیں
پڑا شہتیر آنکھوں کا کبھی نکلا نہیں دیکھا
یہاں دعویٰ مسیحائی کا ہے ہر اک بشر کو پر
کسی کی آگ میں دُوجا کوئی جلتا نہیں دیکھا
حسیں ہے زیست اب ہم بھی گزاریں گے یہاں ہنس کر
الم تا دیر دنیا میں کبھی رُکتا نہیں دیکھا
ذخیرہ لے کے خواہش کا یہیں ہم بیٹھ جائیں گے
مرصّع تخت ہو طاؤس سے زہرہ نہیں دیکھا
زہرہ مغل
No comments:
Post a Comment