Sunday, 19 November 2023

عذاب جاں تھا ترا غم کہ جو سہا نہ گیا

 عذابِ جاں تھا تِرا غم کہ جو سہا نہ گیا

مِرے انا تھی کھڑی درمیاں، کہا نہ گیا

مِرے خلوص نے کتنی گواہیاں دے دیں

مِرا نصیب، مِرے حق میں فیصلہ نہ گیا

انا کی جنگ میں حاصل نہ ہو سکا کچھ بھی

تمام عمر تعلق کا فاصلہ نہ گیا

تم ایک چوٹ دِکھاتے رہے زمانے کو

ہمارے زخموں کو تو آج تک گِنا نہ گیا

ورق ورق پہ تھی رُودادِ زندگی عادل

رسالہ عشق کا ان سے کبھی پڑھا نہ گیا


منظور عادل

No comments:

Post a Comment