داستاں صبر کی غیروں کو سُنائی نہ گئی
جُز رسی دردِ خُدا داد میں پائی نہ گئی
فکرِ آزاد کو پروائے نشیمن کب تک
تہمتِ تنگ دلی مجھ سے اُٹھائی نہ گئی
حرکتِ نفس طلب، اور طلب لامحدود
لُطفِ ساقی ہے کہ یہ پیاس بُجھائی نہ گئی
اے گُزرتی ہوئی دُنیا سے لپٹنے والے
کیا گِلہ ہے جو تِری آبلہ پائی نہ گئی
ذائقہ کون بدل دیتا ہے ہر منزل پر
موت کہتے ہیں جسے وہ تو نہ آئی نہ گئی
ایک سجدے میں کیا کون و مکاں کو اپنا
مر گئے اور تِرے بندوں سے خُدائی نہ گئی
حیف اُس طائرِ بے حال کے نغموں پہ رشید
آشیانہ تو گیا،۔ تلخ نوائی نہ گئی
رشید ترابی
No comments:
Post a Comment