اے دلِ مُضطر ہیں یہ نالے عبث
شکوۂ جاں! تیرے مقالے عبث
پلکیں ابرُو نین لب کافی ہیں بس
خنجر برچھی تیغ اور بھالے عبث
آنکھیں دیتی ہیں مجھے جامِ شراب
ساقیا! تیرے سبھی پیالے عبث
تیرے روشن نین کا ہے یہ اثر
لگتے ہیں مجھ کو سبھی تارے عبث
ہیں عبث رُخسار کے آگے گلاب
سامنے ہونٹوں کے مہ پارے عبث
تیری بانہوں کا قفس ہے گھر مِرا
اور دُنیا کے مکاں سارے عبث
سامنے میری محبت کے کرن
دوسروں کے عشق کے نعرے عبث
کرن زہرہ
No comments:
Post a Comment