اندیشۂ ملال نہ خوفِ گزند ہے
دل کو فقط طوافِ تصوّر پسند ہے
فُرصت خُمارِ چشم کو لمحات چند ہے
وائے نِگاہ و دل کہ درِ یار بند ہے
حائل نہیں ہے اس کے مِرے درمیاں کوئی
فصلِ دراز برقِ نظر کو زقند ہے
ہرگز نہیں ہے تلخئ دُشنام دل پسند
اس کے لبوں سے آئے تو مانندِ قند ہے
زاہد نوید
No comments:
Post a Comment