Saturday, 13 January 2024

جسم کی فصیلوں کے آہنی دریچوں پر

 خواہشوں کی دستک


جسم کی فصیلوں کے آہنی دریچوں پر

بے صدا سے رنگوں کی خواہشوں کی دستک ہے

جسم کے حصاروں میں نیم وا دریچوں سے جھانکنے کو نکلا ہوں

گھر کی سخت تاریکی بے زبان سناٹے

ان گنت کتابوں نے مجھ کو روک کر پوچھا

ہم ہیں دوست دیرینہ

خواہشوں کے لاحاصل مرحلوں سے کیا حاصل

زخم خوردہ لمحوں کو ساتھ ہم بِتاتے ہیں

اور اتنے سالوں کے دیرپا روابط کو کیسے چھوڑ پاؤ گے

سن کے ڈھ گیا میں تو

چپ سا رہ گیا میں تو

شور اب بھی جاری ہے خواہشوں کی دستک کا

گر پڑا ہوں بستر پر سوچتا ہوں بے مقصد

چھت پہ لٹکی مکڑی بھی میری گُنگ حالت پر

مسکراتی جاتی ہے


سجیل قلزم

No comments:

Post a Comment