خواہشوں کی دستک
جسم کی فصیلوں کے آہنی دریچوں پر
بے صدا سے رنگوں کی خواہشوں کی دستک ہے
جسم کے حصاروں میں نیم وا دریچوں سے جھانکنے کو نکلا ہوں
گھر کی سخت تاریکی بے زبان سناٹے
ان گنت کتابوں نے مجھ کو روک کر پوچھا
ہم ہیں دوست دیرینہ
خواہشوں کے لاحاصل مرحلوں سے کیا حاصل
زخم خوردہ لمحوں کو ساتھ ہم بِتاتے ہیں
اور اتنے سالوں کے دیرپا روابط کو کیسے چھوڑ پاؤ گے
سن کے ڈھ گیا میں تو
چپ سا رہ گیا میں تو
شور اب بھی جاری ہے خواہشوں کی دستک کا
گر پڑا ہوں بستر پر سوچتا ہوں بے مقصد
چھت پہ لٹکی مکڑی بھی میری گُنگ حالت پر
مسکراتی جاتی ہے
سجیل قلزم
No comments:
Post a Comment