Saturday, 13 January 2024

کبھی سوچا باغ حیات میں یہ جو سوگ شکل بہار ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کبھی سوچا باغِ حیات میں، یہ جو سوگ شکلِ بہار ہے

جمِ عاشقاں ہے جو سینہ زن، کہ مسیحا اک سرِ دار ہے

یا حسینؑ تیرے ہی سوگ میں، ہیں حزین صدیوں کی ساعتیں

تُو گواہی سورۂ عصر کی، ہر قرن پہ تیرا حصار ہے

ہے گواہ فُطرسِ نِیم جاں، تُو نے مہد میں بھی عطا کیا

کہ جہانِ کُن فیکون میں، تُو ولیِ پروردگار ہے

تیرے سائے میں جو اماں ملے، کہیں اور سے وہ کہاں ملے

تُو شجر جو کٹ کے بھی سایہ دار، تیرا شجرہ عالی وقار ہے

نہ زمانے کو نہ ہی وقت کو، نہ سمجھ سکا کبھی بخت کو

جو حسینؑ کو نہ سمجھ سکے، وہ ذلیل ہے وہ خوار ہے

تیرا سر بُریدہ ہُوا مگر، تیرے لب قرآن سُنا گئے

ہیں گواہ کُوفہ و شام بھی، تُو نوائے ربِ قہار ہے

تیرے حق میں لکھے قبیلِ حق، کہاں قید مذہب و دین کی

جو ہے معرفت کے عروج پر، وہ تیرا قصیدہ نگار ہے

ہے ارم کو آس و اُمید سب، تیرے در سے میرے حسینؑ سُن

کہ مصیبتوں میں ہر ایک پل، تُو ہی میرے دل کی پُکار ہے


ارم اقبال نقوی

No comments:

Post a Comment