Saturday 13 January 2024

دیارِ درد کے صحرا کو پار کر لوں گر

 دیارِ درد کے صحرا کو پار کر لوں گر

ملے گا کیا؟ جو تِرا اعتبار کر لوں گر

ہوا چراغ بُجھانے کے پھر سے درپے ہے

میں ہاتھ جوڑ کے ان کو حصار کر لوں گر

عجب ہے حال مِرا اس کے وار سہہ سہہ کر

میں مرتے مرتے بھی اک بار پیار کر لوں گر

فضا میں درد کی کُونجیں ہمیشہ کُرلاتیں

میں ایک آہ کو اس میں شُمار کر لوں گر

خطا کا آخری نوحہ لکھا گیا ماہتاب

میں اس کے بعد کا موسم بہار کر لوں گر


ماہتاب دستی

No comments:

Post a Comment