نام لے کر جو تِرا آگ سے کھیلا ہو گا
ہاتھ میں اس کے چراغِ یدِ بیضا ہو گا
رشتۂ عمرجو ٹُوٹا بھی تو پھر کیا ہو گا
فکرِ امروز نہ اندیشۂ فردا ہو گا
نالہ سنجیٔ عنادل وہی سمجھا ہو گا
آشیاں جس نے اُجڑتے ہوئے دیکھا ہو گا
اتنا ہی حُسن کا انداز جفا ہو گا پست
جتنا معیارِ وفا عشق کا اونچا ہو گا
راہِ اُلفت میں قدم رکھنے سے پہلے اے دل
کچھ تو دستورِ محبت کو سمجھنا ہو گا
کچھ وہی سمجھے گا دُنیا کے نشیب اور فراز
زندگی کے جوہر اک موڑ سے گُزرا ہو گا
محفل افروزغزل تم نے پڑھی جو شعلہ
آتشِ بُغض و حسد سے عدُو جلتا ہو گا
شعلہ کراروی
سید مومن حسین
No comments:
Post a Comment