Tuesday, 2 January 2024

لگا کے گلشن کو آگ میرے کہا چراغاں کرا رہے ہیں

 لگا کے گُلشن کو آگ میرے کہا چراغاں کرا رہے ہیں

لُٹا کے اپنے تمام اثاثے کو جشن ہم بھی منا رہے ہیں

وہیں کھڑے ہیں جہاں پہ چھوڑا تھا رہبروں نے ہمیں سدھا کر

قدم زمیں میں گڑے ہوئے ہیں، نہ آ رہے ہیں نہ جا رہے ہیں

ارے میاں کون کس کا دُشمن، وہ سازشی تھے وہ سازشی ہیں

ہنسی مجھے اس پہ آ رہی ہے، ڈرے ہوئے ہیں، ڈرا رہے ہیں

وہ اپنے تیر و تبر سنبھالے کھڑے ہوئے ہیں مقابلے میں

ہدف ہیں ہم، جانتے ہوئے بھی اڑے ہیں، غزلیں سُنا رہے ہیں

نہ کوئی حِیلہ، نہ کچھ حوالہ، غرور کے آسماں سے اُترو

زمیں کے بیٹے زمین والے تمہیں ٭براری بُلا رہے ہیں


شعیب رضا فاطمی

٭براری: مطلب پرست

No comments:

Post a Comment