Tuesday, 2 January 2024

خوشبوئے گل سے خزاں رتوں کی ملاقات ہو گئی

خُوشبوئے گُل سے خزاں رُتوں کی ملاقات ہو گئی

یوں غمزدہ پیار وفا کے جذبوں کی اوقات ہو گئی

حالِ دل وہ ہمارا پوچھیں، یا کہیں چُھپ رہیں؟

اُن کی سلامتی کی آرزؤِ فکر تو اپنی مدارات ہو گئی

کچھ دنوں سے اُن کی خبر نہ گُلشن کے نظاروں کی

مگر سُنا ہے کہ وہاں آتش و خُوں کی برسات ہو گئی

یہ جنگ و جدل کے بادل یہ میرے گُلزاروں کے آنسُو

وبا پر زخمِ وبا سے دھرتی نشانۂ حادثات ہو گئی

امن کی کلی سے اپنی مٹی کی خُوئے آزادی تک فہیم

اپنے پیار کی خاطر یوں لڑیں کہ عدُو کو مات ہو گئی


امتیاز فہیم 

No comments:

Post a Comment