کسی کے ساتھ وہ رنگین رات گُزری ہے
کہ ایک رات میں پوری حیات گزری ہے
مِلا ہے دستِ حِنائی سے بادۂ خُوش رنگ
نگاہ و دل پہ عجب واردات گزری ہے
وہ میرے پاس سے گُزرے تو یوں ہُوا محسوس
کہ خُوشبوؤں میں بسی کائنات گزری ہے
نظر سے جلوۂ صد رنگ ایسے گُزرا ہے
کہ جیسے لالہ رُخوں کی برات گزری ہے
سمٹ گئی تھیں بہاریں حسین پیکر میں
طرب نواز شبِ اِلتفات گزری ہے
عرق عرق وہ حیا سے تو پانی پانی میں
جسے بتا نہ سکیں ایسی بات گزری ہے
ہر ایک لمحہ عروجِ نشاط تھا کامل
حیات جس پہ نِچھاور وہ رات گزری ہے
کامل چاندپوری
No comments:
Post a Comment