جب قفس میں مجھ کو یاد آشیاں آ جائے ہے
سامنے آنکھوں کے اک بجلی سی لہرا جائے ہے
دل مِرا وہ خانۂ ویراں ہے جل بجھنے پہ بھی
راکھ سے جس کی دھواں تا دیر اٹھتا جائے ہے
تم تو ٹھکرا کر گزر جاؤ تمہیں ٹوکے گا کون
میں پڑا ہوں راہ میں تو کیا تمہارا جائے ہے
چشم تر ہے اس طرف اور اس طرف ابر بہار
دیکھنا ہے آج کس سے کتنا رویا جائے ہے
میں تو بس یہ جانتا ہوں اس کو ہونا ہے خراب
کیا خبر اس کی مجھے دل آئے ہے یا جائے ہے
میرا پندار خدائی اس گھڑی دیکھے کوئی
جب مجھے بندہ ترا کہہ کر پکارا جائے ہے
اب وہ کیا آئیں گے تم بھی آنکھ جھپکا لو نیاز
صبح کا تارہ بھی اب تو جھلملاتا جائے ہے
نیاز فتحپوری
No comments:
Post a Comment