Monday, 22 January 2024

یہ جو میرے اندر پھیلی خاموشی ہے

 یہ جو میرے اندر پھیلی خاموشی ہے

تم کیا جانو کتنی گہری خاموشی ہے

اس کی اپنی ہی اک چھوٹی سی دُنیا ہے

اک گُڑیا ہے ایک سہیلی خاموشی ہے

تیرا سایہ تیرے ساتھ سفر کرتا ہے

میرے ساتھ مُسلسل چلتی خاموشی ہے

فُرقت کا دکھ بس وہ سمجھے جس پر بیتے

میں ہوں سُونا گھر ہے گہری خاموشی ہے

شب کے پچھلے لمحوں میں اکثر دیکھا ہے

تنہائی سے مل کر روتی خاموشی ہے

یہ موسم یہ منظر رُوٹھے رُوٹھے سے ہیں

جیسے سرد رویے، ویسی خاموشی ہے

لگتا ہے کہ تم نے بھی کچھ دیکھ لیا ہے

ہر لمحے جو تم پر طاری خاموشی ہے

مجھ کو انصر روز پریشاں کر دیتی ہے

تیرے ہونٹوں پر جو رہتی خاموشی ہے


راشد قیوم انصر

No comments:

Post a Comment