خواب میں کر کے رہائی کے نظارے قیدی
جاگ کر روتے رہے آج بے چارے قیدی
آپ کی دُنیا میں جُھولے کی سہولت ہو گی
جُھولتے ہیں یہاں سُولی کے سہارے قیدی
جانتے تھے کہ رہائی کی کوئی راہ نہیں
روز کرتے تھے پر اندھوں کو اشارے قیدی
رات کی آڑ میں مِلتی ہیں سزائیں کیا کیا
شاہزادی کو لُبھاتے ہیں کنوارے قیدی
اُس نے زِندان کے سوراخ تلک بند کیے
کاٹ لیں رات نہ گِنتے ہوئے تارے قیدی
ہے گرفتارِ انا ہر کوئی تا حدّ نگاہ
ظُلمت آباد میں اب کس کو پکارے قیدی
تم تو یادوں کو بھی ہمراہ لیے جاتے ہو
چھوڑ کر جاؤ انہیں یہ ہیں ہمارے قیدی
اُس کے دل کا ہے عجب حال عطا مت پوچھو
جگہ اتنی بھی نہیں پاؤں پسارے قیدی
عامر عطا
No comments:
Post a Comment