Monday 22 January 2024

گل امید ہی کھلا دو تم اک بار مسکرا دو

 اس سے پہلے ہی کہ مُرجھائے گُلزارِ محبت

اس سے پہلے ہی کہ مر جائے فشارِ الفت

اس سے پہلے ہی کہ اُمڈ آئے نزارِ نفرت

اس سے پہلے ہی کہ لڑکھڑائے دیدارِ چاہت

گُلِ امید ہی کِھلا دو

تم اک بار مُسکرا دو

مزدور کی کھولی جلنے سے پہلے اُٹھو بھی

کسان کی جھولی پھیلنے سے پہلے اُٹھو بھی

محکوم کی بولی بِکنے سے پہلے اُٹھو بھی

مظلوم کی کھٹولی اُٹھنے سے پہلے اُٹھو بھی

خاموشیوں کو جگا دو

مل کے غموں کو سزا دو

قبیلوں کی تفریقِ تقسیم کے بُت توڑو بھی

عقیدوں کی نفرت کے سارے بھوت پھوڑو بھی

احترامِ انسانیت کے خلاف تابوت توڑو بھی

کُچلے ہوئے طبقے کی آپسی محبت جوڑو بھی

اتحادِ شعوری علم لہرا دو

سحرِ نو کی سب کو صدا دو

جو ظُلم کے خلاف نہیں وہ ظالم کا حامی ہے

جو خلافِ غاصب نہ اُٹھے وہ مظالم کا حامی ہے

جو مقتل کے خلاف نہیں کُہنہ نظام کا حامی ہے

جو نہ اُٹھے خلافِ جبر وہ تقسیم کا حامی ہے

مل کے لال پرچم اُٹھا لو

نئی سحر کی محبت جگا دو

جہاں سب کا مذہب سب کے لیے قابلِ احترام ہو

جہاں سب کا قبیلا سب کے لیے حاصلِ احترام ہو

جہاں سب کے لیے ضرورتوں کا حصولِ احترام ہو

جہاں نغماتِ آزادی و امن کا فاضل اہتمام ہو

شبِ سیاہ کو اب مِٹا دو

نئے سماج کا ساز بجا دو


امتیاز فہیم

No comments:

Post a Comment