عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اُس پر سلام شاہؑ کو جس کا الم ہُوا
شانہ ہر ایک اُس کا بدن سے قلم ہوا
اکبرؑ کا غم ہُوا، غمِ اکبر امامؑ کو
اصغرؑ کا غم بھی کیا غم اکبرؑ سے کم ہوا
لکھنے لگی جو فاطمہ صغرؑا پدر کو خط
کاغذ تمام اشک کے بہنے سے نم ہوا
عباسؑ کو یہ پیاری بھتیجی سے عشق تھا
مر کر دہن تھا مُشک کے تسمے سے ضم ہوا
اُمت وہ کیونکر حشر کے دن مُنہ دِکھائے گی
ہاتھوں سے جس کے قتل شفیعِ امم ہوا
مشکورِ ایزدی کوئی کم تھا حسینؑ سا
کرتا رہا وہ شکر جہاں تک ستم ہوا
اس بے کلی سے لاشۂ اکبرؑ پہ روئے شاہؑ
جو اشک ریز واں ہر اک اہلِ ستم ہوا
زینب ؑ کو کیا شبیہِؑ پیمبرؐ سے عشق تھا
اکبرؑ کے جیتے اُس کو نہ بیٹوں کا غم ہوا
کہتی تھی بانوؑ لوٹ کے اکبرؑ کی لاش پر
بیٹا! کہو کہ درد کلیجہ کا کم ہوا
بانوؑ نے جب کیے علی اکبرؑ کے غم میں بین
پہلے تو حال غیر امامؑ اُمم ہوا
فرمایا راہِ حق میں پسر ہو گیا نثار
اے بانوؑ تجھ پہ کیا ہی خُدا کا کرم ہوا
بانوؑ نے پوچھا حال تو سجادؑ نے کہا
شکر خُدا کہ ساق سے اونچا ورم ہوا
ٹھوکر لگی کبھی کبھی سجادؑ گر پڑے
صدمہ ہی راہ شام میں ہر ہر قدم ہوا
دُھن جو بندھی تھی بخشش اُمت کی شاہؑ کو
پیاروں کا غم ہوا نہ رفیقوں کا غم ہوا
شب کو امامؑ ذوقِ شہادت میں کہتے تھے
جینا یہ ایک شب کا ہمیں مغتنم ہوا
عباسؑ نے سکینہؑ کی دیکھی جو تشنگی
سیلاب کی طرح سے رواں سُوئے یم ہوا
ہر چند بعد باپ کے عابدؑ بہت جیے
پر مرتے مرتے بھی کبھی رونا نہ کم ہوا
عباسؑ شہؑ سے کہتے تھے رکھ لیجے اس کی شرم
بندے کو ہے جو آج عنایت عَلم ہوا
اے کاش ہو وہ روز کہ خلقت کہے مجھے
دلگیر آج زائرِ شاہِؑ اُمم ہوا
دلگیر لکھنوی
لالہ چھنو لال دلگیر
No comments:
Post a Comment