Friday 7 June 2024

یہ رات بہت تاریک سہی وہ صبح کبھی تو آئے گی

 "وہ صبح کبھی تو آئے گی"

یہ رات بہت تاریک سہی

امید مگر دل کو ہے ابھی

"وہ صبح کبھی تو آئے گی"

جب مذہب کی دیواروں سے

یہ ملک نہ بانٹا جائے گا

جب بازاروں میں نفرت کا

یہ زہر نہ بانٹا جائے گا

جب اہلِ حکم کی آنکھوں میں

ہم آنکھ مِلا کر بولیں گے

جب جُھوٹے سچے وعدوں پر

ہم ان سے بھی کچھ پُوچھیں گے

حق بولنے والے چہروں پر

جب ظُلم نہ ڈھائے جائیں گے

جب نام پہ مندر، مسجد کے

دنگے نہ کرائے جائیں گے

جب مزدوروں کے جسموں کو

گاڑی سے نہ کُچلا جائے گا

جب قوم کی ماؤں بہنوں کی

عصمت کو نہ مسلا جائے گا

اپنے ہی وطن میں جب ہم کو

غداّر نہ بولا جائے گا

نفرت کے شہر میں اُلفت کا

بازار بھی کھولا جائے گا

"وہ صبح کبھی تو آئے گی"

"وہ صبح کبھی تو آئے گی"


مسعود ظہیر نقوی

ساحر لدھیانوی کی مایہ ناز انقلابی نظم "وہ صبح کبھی تو آئے گی" سے متاثر ہو کر کہی گئی نظم لگتی ہے۔

No comments:

Post a Comment