Wednesday 26 June 2024

تنہائیوں میں کیا کہوں کیا یاد آ گیا

 تنہائیوں میں کیا کہوں کیا یاد آ گیا

افسانہ ایک بُھولا ہُوا یاد آ گیا

آساں سمجھ کے منزل جاناں پہ ہو لیے

وہ مُشکلیں پڑی کہ خُدا یاد آ گیا

سمجھا تھا میں کہ دل میں وہ اب محو ہو چکا

پہلے سے بھی مگر وہ سوا یاد آ گیا

دل نے فریبِ عشق میں کھائے ہیں بار بار

ہر بار دل کو عہدِ وفا یاد آ گیا

میرا سر غرور نِدامت سے جُھک گیا

اس کا کرم جو مجھ کو ذرا یاد آ گیا

گُمنام تھا حبیب، اور گُمنام چل دیا

اس کا مگر وہ صِدق و صفا یاد آ گیا


جے کرشن چودھری حبیب

No comments:

Post a Comment