تنہائیوں میں کیا کہوں کیا یاد آ گیا
افسانہ ایک بُھولا ہُوا یاد آ گیا
آساں سمجھ کے منزل جاناں پہ ہو لیے
وہ مُشکلیں پڑی کہ خُدا یاد آ گیا
سمجھا تھا میں کہ دل میں وہ اب محو ہو چکا
پہلے سے بھی مگر وہ سوا یاد آ گیا
دل نے فریبِ عشق میں کھائے ہیں بار بار
ہر بار دل کو عہدِ وفا یاد آ گیا
میرا سر غرور نِدامت سے جُھک گیا
اس کا کرم جو مجھ کو ذرا یاد آ گیا
گُمنام تھا حبیب، اور گُمنام چل دیا
اس کا مگر وہ صِدق و صفا یاد آ گیا
جے کرشن چودھری حبیب
No comments:
Post a Comment