Tuesday 25 June 2024

لب امروز پر ہے نعت ان کی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


لبِ امروز پر ہے نعت ان کی

جو ماضی میں ہے فردا بولتا ہے

انہی کے ہاتھ ہے اب لاج میری

رُخِ ہستی کا پردہ بولتا ہے

انہیں پر ناز کرتا ہے زمانہ

وہی ہیں سب کے نیتا بولتا ہے

جو ہے سنسار میں جویا خدا کا

کرے ہے ان کی پوجا بولتا ہے

انہی کی یاد میں دن رات عاشق

مری روشن ہے کٹیا بولتا ہے

بلاتے ہیں جنہیں وہ اپنے در پر

انہی کا بس نصیبہ بولتا ہے

کرے ہے خیر کی باتیں جو عاشق

وہی خیر البشر کا بولتا ہے

تصور میں جو آ جائے مدینہ

نظر سے ان کو روضہ بولتا ہے

یہاں ہیں سارے انوارِ الہیٰ

یہ در غارِ حرا کا بولتا ہے

ہو کیسا ہی جہاں میں شہرِ عاشق

مگر ہم سے مدینہ بولتا ہے

سنا ہے آپ کے شعروں میں عاشق

غمِ شاہِ مدینہ بولتا ہے


عاشق کیرانوی

No comments:

Post a Comment