زخم ناسور کوئی ہونے سے
درد اُگتا ہے درد بونے سے
وہ تھا مرکوز میرے مرکز پہ
اور اُدھڑتا رہا میں کونے سے
چلو اب ہنس کے دیکھ لیتے ہیں
دل پگھلتے نہیں ہیں رونے سے
اسے ہم سُود اب کہیں یا زیاں
مل گیا خواب نیند کھونے سے
وہ اندھیروں میں ہی رہے آخر
بُجھ گئے جو چراغ ڈھونے سے
دن میں بھی رات کا سماں ہو گا
جاگتے میں یوں سب کے سونے سے
میری مٹی ہے اب تلک کچی
گُھل نہ جاؤں کہیں بھگونے سے
اب سمندر نپٹ اکیلا ہے
کیا مِلا کشتیاں ڈبونے سے
میرے سائے سے یہ بھی ظاہر ہے
نُور حائل ہے میرے ہونے سے
نوین جوشی
No comments:
Post a Comment