Wednesday, 26 June 2024

اٹھو یہاں سے کہیں اور جا کے سو جاؤ

 اٹھو یہاں سے کہیں اور جا کے سو جاؤ

یہاں کے شور سے بھاگو کہیں بھی کھو جاؤ

لہو لہو نہ کرو زندگی کے چہرے کو

ستم گروں کی نوازش سے دور ہو جاؤ

کہاں پھرو گے غبار سفر کو ساتھ لیے

متاع درد کو دامن میں لے کے سو جاؤ

کرم کی بھیک کہاں قاتلوں کی بستی میں

بدن کا خول اٹھاؤ، لحد میں سو جاؤ

یہ سایہ دار شجر تو فریب دیتے ہیں

خزاں کے ساتھ رہو آندھیوں کے ہو جاؤ

یہ زندگی تو فریبوں کا آئینہ ٹھہری

اب اپنی کھوج میں بھٹکو، فرار ہو جاؤ


پنڈت سریندر سوز

No comments:

Post a Comment