عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہمارے گاؤں کی مسجد ہمیں بلاتی ہے حصہ سوم
نماز
فرض ہے
پڑھنا بہت ضروری ہے
قضا کا قرض ہے
ہر حال میں چکانا ہے
یہ فضلِ ربّی ہے، تحفہ بھی آخرت کا ہے
یہ شمع ہجر ہے، ہجرت کے داغ روشن ہیں
مسافرت کے مسلسل چراغ روشن ہیں
نماز
مکی ہے، مدنی ہے، کربلائی ہے
کسی مقام سے پڑھیے
قبول ہوتی ہے
زمیں کے عجز
فلک کے حصول ہوتے ہیں
دعا کی شاخ پہ جنت کے پھول ہوتے ہیں
نماز
صدق و صفا سے، منزّہ، مصفّیٰ، مجلاّ ہوتی ہے
نماز، کفر کی تفریق کو مٹاتی ہے
نماز شرک کی آگ سے بچاتی ہے
نماز سارے کثافت کو دور کرتی ہے
نماز ہی تو ہے ظلمت کو نور کرتی ہے
نماز دولتِ بیدار لے کے آتی ہے
نماز فقر کے فاقہ پہ ناز کرتی ہے
نماز رات کا جامہ دراز کرتی ہے
نماز صبح قیامت کا سبز عمامہ ہے
نماز سارے شہیدوں کا سرخ جامہ ہے
نماز قدم مبارک پہ سر جھکاتی ہے
بلال حبشی کی آواز کو اٹھاتی ہے
اویس قرنی کا انداز بھی سکھاتی ہے
نماز بزم میں قدرت کا آئینہ بھی ہے
نماز رزم میں فطرت کا ولولہ بھی ہے
جہاں مصلّیٰ تو گھوڑے کی پشت پوتی ہے
نظر میں برق تماشا بہشت ہوتی ہے
نماز صبر کی تلقین ہے، امین بھی ہے
نماز راحتِ جاں، روح کا یقین بھی ہے
نماز عید ہے، بقر عید ہے
محرم ہے
نماز رمضاں کا حسن و جمال رکھتی ہے
نماز ہونٹ پہ رزق حلال رکھتی ہے
نماز ہی شب معراج کا تصور ہے
شب برأت، شب قدر کی زینت نماز ہوتی ہے
نماز ہی تو سکھاتی ہے قیام الیل
یہ بطل و جہل کبھی مانتی ہی نہیں
سوائے حق کے کسی کو یہ جانتی ہی نہیں
درِ یزید پہ جب بھی قیام کرتی ہے
یہ نوکِ نیزہ پہ ہنس کر سلام کرتی ہے
نماز قیام میں درسِ قیام دیتی ہے
رکوع میں گفتگو ربِّ عظیم کی ہو گی
کہ بات سجدے میں ربِّ کریم سے ہو گی
نماز قوم کے تقدیر کا ستارہ ہے
نماز کنبے کی عزت ہے آبرو بھی ہے
حُر کی حُرّیت ہے نماز
نماز ایک مسافر کی عافیت بھی ہے
نماز توشۂ آخرت بھی ہے
نماز نام ہے ظالم کے ظلم سے بغاوت کا
نماز نام ہے معصوم کی شجاعت کا
نماز زخم تمنا کے گل کھلاتی ہے
نماز نیزے پہ چڑھتی ، مسکراتی ہے
نماز خون میں کچھ اس طرح نہاتی ہے
لہو کی پیاس کو گویا وضو کراتی ہے
نماز شانۂ مصطفیٰﷺ سے اتری ہے
سرِ حسینؑ کے سجدہ میں ڈوب جاتی ہے
اذان: زیست کی کلکاریاں
نماز: خاتمہ بالخیر
صدا وہ اللہ اکبر کی روز آتی ہے
ہمارے گاؤں کی مسجد ہمیں بلاتی ہے
اشہد کریم الفت
No comments:
Post a Comment