مٹی سے تنگ
گھر سے بھاگے ہوئے لوگ ہم
اپنی مٹی سے بھی تنگ ہیں
جب بنائے گئے عکس سب کے سجائے گئے
مختلف زاویوں پر تبھی پھر ملائے گئے
ان گنت لوگ آپس میں ایسے کہ کر دی گئی
ختم تقسیم ان کی مگر
پھر بھی مجھ سے کئی اک ہیں موجود جو
نام بے نام سی اس ہی تقسیم کو چاہتے ہیں کہ زندہ رہے
جب کہ سچ ہے یہی اس جہاں میں نہیں پورا کوئی عبث
یہ حقیقت نرالی نہیں
کب کوئی مٹی کا بت ازل سے مثالی نہیں
اور دلچسپ بات ہے کہ کوئی محبت سے خالی نہیں
مختلف رنگ ہیں
خوبصورت چمک
سات رنگی دھنک
رنگ ہر اک الگ
ہر محبت میں موجود ہے
جیسے گرگٹ کوئی
بس گھڑی دو گھڑی میں بدلتا رہے
اس پہ ہر شخص ہی
من ہی من میں کسی کے سمایا ہوا
اور حد ہے ہمیں تُو نے کس
کے مداروں میں انتھک گُھمایا ہوا
حورعین علی
No comments:
Post a Comment