Saturday 29 June 2024

کمال عشق کی معراج یوں نبھاتے ہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کمالِ عشق کی معراج یوں نبھاتے ہیں

حسینؑ زین سے سُوئے زمین آتے ہیں


تڑپ رہی ہے زمیں، بحر و بر پہ لرزہ ہے

کل انبیاء کے لبوں پر سدائے گریہ ہے

ملائکہ سرِ افلاک خاک اڑاتے ہیں

حسینؑ زین سے سُوئے زمین آتے ہیں


بس اب قریب ہے وہ وقت، شام ہوتی ہے

ہے کچھ ہی دیر، تِری زحمت تمام ہوتی ہے

یہ راہوار کے کانوں میں کہتے جاتے ہیں

حسینؑ زین سے سُوئے زمین آتے ہیں


نظر اُٹھا کے جو مقتل کو دیکھتے ہیں امامؑ

کہاں وہ حلقۂ احباب اور کہاں یہ مقام

تھے کیسے کیسے دلاور جو یاد آتے ہیں

حسینؑ زین سے سُوئے زمین آتے ہیں


قریبِ خیمہ بہن دیکھتی ہے تھامے جگر

حسینؑ پہ جو برستے ہیں تیر اور تبر

لعین اُس کے کلیجے پہ حشر ڈھاتے ہیں

حسینؑ زین سے سُوئے زمین آتے ہیں


ہزار تیر ہیں سینے میں جا بجا پیوست

ادائے سجدۂ آخر میں ہے بنی دقت

بدن میں اپنے ہی تیروں کو شہؑ دھنساتے ہیں

حسینؑ زین سے سُوئے زمین آتے ہیں


ہے کس شقی میں یہ ہمت، رضائے شہؑ کے بنا

علیؑ کے لعل کے سر کو کرے بدن سے جدا

مگر وہ جرأتِ قاتل کو آزماتے ہیں

حسینؑ زین سے سُوئے زمین آتے ہیں


ہے بندگی کو بھی حیرت یہ دیکھ کے منظر

اُدھر جو شمر چلاتا ہے تیغ گردن پر

اِدھر یہ شکرِ خدا وند لب پہ لاتے ہیں

حسینؑ زین سے سُوئے زمین آتے ہیں


گواہ ہیں ناحیہ کے زیدی ہائے وہ جملے

امامِ عصرؑ تڑپتے ہیں شاہؑ کے غم میں

یہ وقت سوچ کے وہ اشکِ خوں بہاتے ہیں

حسینؑ زین سے سُوئے زمین آتے ہیں


ارسلان علی زیدی

No comments:

Post a Comment