یقین کر کہ مِرا ضبط آزماتی ہے
تِری طرف سے ادھوری خبر جو آتی ہے
خیال میں بھی کبھی اس کو چُھو نہیں پاتے
ہماری ناؤ تو صحرا میں ڈُوب جاتی ہے
سنور چکی تھی جو دُنیا تمہارے ہوتے ہوئے
تمہارے بعد مُسلسل بکھرتی جاتی ہے
یہ میں نے بال بکھیرے ہیں، پیڑ نے پتے
تِری جُدائی تو ہر شے پہ چھائے جاتی ہے
میں اپنے خواب کی تعبیر کر چکا ہوں عمیر
میں جانتا ہوں یہ خُوشبو کہاں سے آتی ہے
عمیر مشتاق
No comments:
Post a Comment