Monday 24 June 2024

یقین کر کہ مرا ضبط آزماتی ہے

 یقین کر کہ مِرا ضبط آزماتی ہے

تِری طرف سے ادھوری خبر جو آتی ہے

خیال میں بھی کبھی اس کو چُھو نہیں پاتے

ہماری ناؤ تو صحرا میں ڈُوب جاتی ہے

سنور چکی تھی جو دُنیا تمہارے ہوتے ہوئے

تمہارے بعد مُسلسل بکھرتی جاتی ہے

یہ میں نے بال بکھیرے ہیں، پیڑ نے پتے

تِری جُدائی تو ہر شے پہ چھائے جاتی ہے

میں اپنے خواب کی تعبیر کر چکا ہوں عمیر

میں جانتا ہوں یہ خُوشبو کہاں سے آتی ہے


عمیر مشتاق

No comments:

Post a Comment