کس بات پہ تم تکرارِ ملاقات کرو ہو
ہم ڈرتے ہیں جس بات سے وہ بات کرو ہو
مقتول تمہارا تمہیں کہتا ہے مسیحا
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
لہراؤ ہو زُلفوں کو جو رہ رہ کے جبیں پر
کرتے ہو کبھو دن تو کبھی رات کرو ہو
یہ دور پُر آشوب ہے اور شہرِ نگاراں
نصرت! کہو کیسے بسر اوقات کرو ہو
نصرت زیدی
No comments:
Post a Comment