شاید گلشن پر صحرا کا سایہ ہے
ہر ٹہنی پر سراب نکل کر آیا ہے
آوازوں کا رقص ہے میرے چاروں سُو
خاموشی نے اتنا شور مچایا ہے
جھوٹ کی اس زرخیز زمیں سے ہم نے تو
کبھی نہ جو بویا تھا وہ بھی پایا ہے
ہم وہ جن کی رستوں نے امداد تو کی
ہم وہ جن کو منزل نے ٹھکرایا ہے
سرخی سی ہے اخباروں کی سرخی میں
آنگن آنگن ہر چہرہ مرجھایا ہے
میں نے تیرے قرب میں جینے کی خاطر
کتنے ہی جذبوں کا خون بہایا ہے
یہ عمار تیرے چاہنے کی عادت تھی
یا یہ کوئی قرض تھا جس کو چکایا ہے
عمار زیدی
No comments:
Post a Comment