Saturday 29 June 2024

شاید گلشن پر صحرا کا سایہ ہے

 شاید گلشن پر صحرا کا سایہ ہے

ہر ٹہنی پر سراب نکل کر آیا ہے

آوازوں کا رقص ہے میرے چاروں سُو

خاموشی نے اتنا شور مچایا ہے

جھوٹ کی اس زرخیز زمیں سے ہم نے تو

کبھی نہ جو بویا تھا وہ بھی پایا ہے

ہم وہ جن کی رستوں نے امداد تو کی

ہم وہ جن کو منزل نے ٹھکرایا ہے

سرخی سی ہے اخباروں کی سرخی میں

آنگن آنگن ہر چہرہ مرجھایا ہے

میں نے تیرے قرب میں جینے کی خاطر

کتنے ہی جذبوں کا خون بہایا ہے

یہ عمار تیرے چاہنے کی عادت تھی

یا یہ کوئی قرض تھا جس کو چکایا ہے


عمار زیدی

No comments:

Post a Comment