عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شمشیرِ ابوالفضل العباسؑ
ثانئ حیدرِ کرّار کی تلوار ہوں میں
دشمنِ دینِ خدا کے لیے للکار ہوں میں
شام والوں کے لیے آہنی دیوار ہوں میں
غیظ آ جائے تو پھر موت کا بازار ہوں میں
موت سر پہ ہو کھڑی جب میں وہی لمحہ ہوں
رعب میں تیغِ ید اللہ کی ہم پلّہ ہوں
جب بھی میدان میں نکلوں تو قیامت کر دوں
خاک میدان میں اعداء کی شقاوت کر دوں
نقش سب سینوں پہ دہشت کی عبارت کر دوں
موت ڈر جائے میں دشمن کی وہ حالت کر دوں
میری تعظیم میں مقتل میں کمانیں خم ہیں
میرے آگے سبھی تیغوں کی نگاہیں خم ہیں
دستِ عباسِؑ علمدار ہے کعبہ میرا
ثانئ حیدرِ کرّار ہے مولا میرا
عام ہے موت کے بازار میں چرچا میرا
چلتا ہے جنگ کے میدان میں سِکہ میرا
سر اِدھر جاتا ہے اور لاش اُدھر جاتی ہے
جب میں چلتی ہوں تو خود موت بھی ڈر جاتی ہے
میں نے صفین میں دِکھلایا تھا جلوہ اپنا
جس گھڑی شام کے لشکر پہ کیا تھا حملہ
خوف سے زرد ہوا جاتا تھا سب کا چہرہ
سامنے جو بھی مِرے آیا اڑا سر اس کا
کاٹ کے جسموں سے سر بُھوک مٹائی میں نے
خون پی پی کے وہیں پیاس بُجھائی میں نے
کبھی چمکی کبھی بھڑکی تو کبھی وار کیا
جو عدو نے کیا اس وار کو بے کار کیا
لڑنے آیا جو رواں اس کو سُوئے نار کیا
دو کیے ایک کے اور دو کو کہیں چار کیا
اچھے لگتے تھے سر و جسم کے انبار مجھے
داد دیتی تھی یداللہ کی تلوار مجھے
میں نے کُفّار کے لشکر کا بھرم توڑ دیا
موت سے تار ستمگاروں کا پھر جوڑ دیا
راستہ سب کا جہنم کی طرف موڑ دیا
مار کے تیغ تڑپنے کے لیے چھوڑ دیا
وہ جدھر جاتے اسی سمت چلی آتی تھی
اپنے عباسؑ کی مرضی میں سمجھ جاتی تھی
کربلا میں بھی یہی دل میں تھا ارمان مِرے
اپنے مولا سے وغا کا جو مجھے اِذن مِلے
کیا حقیقت ہے مِری پھر سے زمانے پہ کُھلے
لے کے میدان میں عباسِؑ جرّی اُترے مجھے
پھر مقدّر میں ہر اک پیاسے کے پانی لکھ دوں
جا کے پیشانی پہ دریا کی میں غازی لکھ دوں
پر نہ عباسؑ کو مولا سے مِلا اِذنِ وغا
اِبنِ زہراؑ نے یہ عباسؑ سے رو رو کے کہا
جا کے بس پانی کی تدبیر کرو اے بھیا
سُن کے شبیرؑ سے یہ ٹُوٹ گیا دل میرا
خون روتے ہوئے جرّار کو دیکھا میں نے
آخری بار علمدار کو دیکھا میں نے
فخر دل میں ہے مِرے بس یہی حسرت باقی
وہ جو غیبت میں ہیں موجود امامِ ہادی
ختم بس اب ہو خدا جلد ہی غیبت ان کی
ساتھ مہدی کے چلا آئے گا میرا غازی
پھر چلوں گی تو سبھی فتنے ہوا کر دوں گی
اپنے غازی کی قسم حشر بپا کر دوں گی
فخر عباس رضوى
No comments:
Post a Comment