Saturday, 29 June 2024

وفا کے دعووں پہ ہنس رہا تھا

 وفا کے دعووں پہ ہنس رہا تھا

مجھے نیا ہجر ہو گیا تھا

بہت ہی بد شکل نکلی دنیا

میں پہلے پردے پہ دیکھتا تھا

اسے بتاتا تھا میری باتیں

خدا مِری کال سن رہا تھا

سمجھ میں کیا آتا میرا لہجہ

کسی کی باتوں میں آ گیا تھا

اتار پھینکی تھی شام سر سے

ابھی تو پارا نہیں چڑھا تھا

تم آج تک رو رہے ہو جو غم

وہ دو دنوں سے زیادہ کا تھا

غریب بیوہ کا ہاتھ تھاما

مدینے جانے کا راستہ تھا

اور اس کی ہریانوی زباں تھی

اور اس کے ہاتھوں میں اک گھڑا تھا

یہ جملہ جو پہلے کہہ دیا ہے

یہ وصل کے عین بعد کا تھا


ابراہیم حماد

No comments:

Post a Comment