وہ پس مرگ نہ لاشے کو اٹھانے دے گا
میری آغوش میں رہ رہ کے سرہانے دے گا
تیری فطرت تو وہی خانہ بدوشی ٹھہری
زندگی تجھ کو بھلا کون ٹھکانے دے گا
خط پرانے ہی سہی آج دوبارہ پڑھ لیں
تو کہاں وقت ہمیں اگلے زمانے دے گا
پہلی سی غوطہ زنی بس میں نہیں ہے اس کے
اب مقدر نہ اسے کھل کے نہانے دے گا
میں سوا سچ کے کوئی بات نہ سوچوں گا کبھی
عہد یہ کب وہ بھلا مجھ کو نبھانے دے گا
یہ نئی نسل تو سلفے کا دھواں ہے یارو
اب اسے کون ٹھہرنے کے ٹھکانے دے گا
پنڈت سریندر سوز
No comments:
Post a Comment