Saturday 29 June 2024

وہ پس مرگ نہ لاشے کو اٹھانے دے گا

 وہ پس مرگ نہ لاشے کو اٹھانے دے گا

میری آغوش میں رہ رہ کے سرہانے دے گا

تیری فطرت تو وہی خانہ بدوشی ٹھہری

زندگی تجھ کو بھلا کون ٹھکانے دے گا

خط پرانے ہی سہی آج دوبارہ پڑھ لیں

تو کہاں وقت ہمیں اگلے زمانے دے گا

پہلی سی غوطہ زنی بس میں نہیں ہے اس کے

اب مقدر نہ اسے کھل کے نہانے دے گا

میں سوا سچ کے کوئی بات نہ سوچوں گا کبھی

عہد یہ کب وہ بھلا مجھ کو نبھانے دے گا

یہ نئی نسل تو سلفے کا دھواں ہے یارو

اب اسے کون ٹھہرنے کے ٹھکانے دے گا


پنڈت سریندر سوز

No comments:

Post a Comment