مجھ سے کیوں اِتنا خفا ہو گیا ہمسایہ مِرا
عید کے دن بھی کھٹکتا نہیں دروازہ مرا
میری آنکھوں سے سنور کر مجھے اُس نے یہ کہا
کتنے خوش بخت ہو تم اور یہ آئینہ مرا
آپ کے سامنے آنے سے بہت ڈرتا تھا
آپ کے سائے سے ٹکرا ہی گیا سایہ مرا
چاہتا ہوں کہ رہے خوش وہ کسی اور کے ساتھ
چاہتا ہوں کہ رہے زخم تر و تازہ مرا
مجھ کو معلوم تھا ایسے نہیں ملنا تُو نے
راستہ ٹھیک نہیں، ٹھیک تھا اندازہ مرا
ایک طوفان سے بکھرے ہوئے پتوں کی طرح
ایک دہلیز پہ بکھرا ہوا گلدستہ مرا
عمیر مشتاق
No comments:
Post a Comment